Duniya ki baty

Duniya ki baty stores own life

ہم نے سب شعر میں سنوارے تھےہم سے جتنے سخن تمہارے تھےرنگ و خوشبو کے حسن و خوبی کےتم سے تھے جتنے استعارے تھےتیرے قول و قرا...
03/08/2023

ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے
ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے

رنگ و خوشبو کے حسن و خوبی کے
تم سے تھے جتنے استعارے تھے

تیرے قول و قرار سے پہلے
اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے

جب وہ لعل و گہر حساب کیے
جو ترے غم نے دل پہ وارے تھے

میرے دامن میں آ گرے سارے
جتنے طشت فلک میں تارے تھے

عمر جاوید کی دعا کرتے
فیضؔ اتنے وہ کب ہمارے تھے

اب ترا دَور بھی آنے کو ہے اے فقرِ غیورکھا گئی رُوحِ فرنگی کو ہوائے زر و سِیم(اقبال رحمۃ اللہ علیہ)
03/08/2023

اب ترا دَور بھی آنے کو ہے اے فقرِ غیور
کھا گئی رُوحِ فرنگی کو ہوائے زر و سِیم

(اقبال رحمۃ اللہ علیہ)

وہ اپنا حافظہ ہی کھو بیٹھی تھیوعدے تو بہت یاد دلائے میں نے
03/08/2023

وہ اپنا حافظہ ہی کھو بیٹھی تھی
وعدے تو بہت یاد دلائے میں نے

19/10/2022

چند دن پہلے ایک مقامی ہوٹل میں رات کا کھانا کھانے گیا، ایک ویٹر کو دیکھا جس کی عمر لگ بھگ 7 سال تھی ۔۔۔۔۔ عمر میں سب سے کم مگر کام میں سب سے پُھرتیلا ۔۔۔۔۔۔ جس عمر میں خواب دیکھتے ہیں وہ دیکھ کر توڑ چکا تھا اور اب وہ دو وقت کی روٹی کا "بھوکا " تھا ۔۔۔۔۔۔۔
بھاگ بھاگ پر روٹی لانا ، برتن اٹھانااور آرڈر لینا اُس کی عادت بن چُکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ میرے سامنے دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک شخص جو راستے میں پلرسےہاتھ لگائےکھڑاتھا اسکےبازو کے نیچے سے پلیٹیں لے کر گزر گیا ۔۔۔۔۔۔ اُسکی پھرتی کی وجہ سے دوسرے ویٹر اُس سے نالاں تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تِکوں کے سٹال کے قریب بیٹھا تھا، چند منٹوں میں 10 درجن سے زائد تِکوں کا آرڈر لگ چُکا تھا ۔۔۔۔۔۔ جبکہ کڑاہی، مٹن وغیرہ کے آرڈر الگ۔۔۔۔۔۔ہوٹل کی سیل سے مجھے لگ رہا تھا چھوٹا ویٹر کم از کم 150 روپیہ دیہاڑی تو لیتا ہوگا۔۔۔۔۔۔ جب میں نے تنخواہ کا پوچھا تو کہنے لگا ، سر جی تنخواہ نہیں ملتی ۔۔۔۔ مالک کہتے ہیں ابھی پانچ چھ ماہ تک سیکھو ۔۔۔۔۔۔۔ اور جو کام کروگے اُس کے بدلے کھانا ملے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا سر شرم سے جھک گیا ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔ جو ہوٹل والا ایک گھنٹے میں دس ہزار سے زائد کی سیل کرتا ہوگا ایک غریب مزدور کا حق مارتا ہے جو صبح 9 سے رات بارہ تک لگاتار 15 گھنٹے کام کرتا ہے۔۔کیا اُس کی کمائی حلال ہے؟ کیا وہ مجرم نہیں؟؟۔۔۔۔ جُرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے پیچھے اکثر ایسے عناصر کارفرما ہوتے ہیں جب بھوک لگتی ہے ناں تو عزت وزت کچھ نہیں دیکھتی کئی ہزاروں بچیاں بھی جو بلوغت تک پہنچ رہی ہوتی ہیں بیچاری دووقت کے ٹکڑوں کیلیے گھروں میں جھاڑو لگاتی پھرتی ہیں یہیں پہ بس نہیں انکو گندی گالیاں اور مارپیٹ بلکہ جانے کیا کیا برداشت کرنا پڑتاہے ۔۔۔ خدارا اپنے ماتحتوں کا حق نہ ماریے ۔۔۔۔ خیر ۔۔۔۔۔۔
اگلے ہی روز میں عدالت میں کسی کام سے گیا تو دیکھا کہ وہ ایک وکیل کے چیمبر میں جھاڑو لگارہا ہے، لیکن اُسے دیکھتے ہی میں نے راستہ بدل لیا ، کیونکہ میں یہ نہیں سننا چاہتا تھا کہ صاب جی اس جھاڑو کے بدلے ناشتہ ملتا ہے۔۔۔۔!!!😭😭😭

*ایک عورت کے نکاح کی خوبصورت کہانی*جب میرے *بابا امّی* کی شادی ہوئی تو بابا نے حق مہر کے طور پر امّی کے لیے *سورۃ آلِ عم...
19/10/2022

*ایک عورت کے نکاح کی خوبصورت کہانی*
جب میرے *بابا امّی* کی شادی ہوئی تو بابا نے حق مہر کے طور پر امّی کے لیے *سورۃ آلِ عمران* حفظ کی اور جب میری شادی ہو رہی تھی تو بابا نے میرے شوہر کو بھی یہی کہا کہ وہ میرے حق مہر میں قرآن کی کوئی سورۃ حفظ کرے اس کے بعد شادی کرنے کا کہا گیا
مجھے اپنے حق مہر کے لیے قرآن کی کوئی سورۃ کا انتخاب کرنے کے لیے کہا گیا تو میں نے *سورۃ النّور* کا انتخاب کیا
مجھے لگ رہا تھا یہ سورۃ حفظ کرنا بہت مشکل ہے ایک طرف شادی کی تیاریاں ہو رہی تھی تو دوسری طرف میرے شوہر سورۃ حفظ کر رہے تھے ہر وقت ان کے ہاتھ میں قرآن ہوتا اور وہ سورۃ یاد کر رہے ہوتے
شادی سے کچھ دن پہلے میرے شوہر بابا کے پاس آئے سورۃ سنانے جو اُنہوں نے پوری حفظ کرلی تھی بابا بار بار غلطی نکالتے اور شروع سے شروع کرنے کا بولتے میرے شوہر نے آہستہ آواز میں تلاوت شروع کی اتنا خوبصورت منظر میں کبھی نہیں بھول سکتی میں اور میری امّی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور میرے شوہر کی اگلی غلطی کے انتظار میں مُسکرانے لگی جس کے بعد انہیں پھر سے شروع کرنا پڑتا پر میرے شوہر نے ایک بار میں پوری سورۃ سُنا دی ایک لفظ بھی نہیں بھولے
سورۃ سُننے کے بعد میرے بابا نے انہیں گلے سے لگا لیا اور کہا کہ میں اپنی بیٹی کی شادی تم سے کروں گا تم نے اس کا حق مہر ادا کردیا ہے
انہوں نے مجھے کوئی مالی حق مہر نہیں دیا نہ ہی ہم نے کوئی قیمتی زیور خریدے انہوں نے مجھے کہا ہم دونوں کے درمیان حلف و معاہدے کے طور پر اللّٰہ کے الفاظ کافی ہیں اب میں سوچتی ہوں مستقبل میں میری بیٹی اپنے حق مہر کے لیے کونسی سورۃ کا انتخاب کرے گی؟
اگر ایسا حق مہر اور جہیز شادیوں پہ دیا جانے لگے تو ہر غریب کی بیٹی کی شادی آسانی سے ہو اور شادیاں کامیاب بھی ہوں کبھی کوئی گھر نہ اجڑے نہ ہی بہوئیں جہیز کے طعنوں سے تنگ آ کر خود کُشی کرے *

WhatsApp Group Invite

والدین کے اکلوتے بیٹے اور دو بہنوں کے اکلوتے پڑھے لکھے بھائی جنید کا اپنے محلے کے ایک نوجوان سے جھگڑا ہو گیا. ہاتھا پائی...
19/10/2022

والدین کے اکلوتے بیٹے اور دو بہنوں کے اکلوتے پڑھے لکھے بھائی جنید کا اپنے محلے کے ایک نوجوان سے جھگڑا ہو گیا. ہاتھا پائی ہوئی اور کچھ گالیوں کا تبادلہ بھی ہوا.جنید گھر آیا اور اپنے کمرے میں بیٹھ گیا. اس نے اپنے دشمن کو مارنے کا فیصلہ کر لیا اور الماری سے پستول نکال لیا. اچانک اسے اپنے ایک دوست کی نصیحت یاد آ گئی. دوست نے اسے ایسا کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے 30 منٹ کے لئے واردات کے بعد کی صورتحال تصوراتی طور پر دیکھنے کا کہا تھا.
جنید نے تصور میں اپنے دشمن کے سر میں تین گولیاں فائر کر کے اسے ابدی نیند سلا دیا. ایک گھنٹے بعد وہ گرفتار ہو گیا. گرفتاری کے وقت اس کے والدین اور دو بہنیں پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں. اس کی ماں بے ہوش ہو گئی. مقدمہ شروع ہوا تو گھر خالی ہونا شروع ہو گیا. ایک کے بعد ایک چیز بکتی گئی. بہنوں کے پاس تعلیم جاری رکھنا ناممکن ہو گیا اور ان کے ڈاکٹر بننے کے خواب مقدمے کی فائل میں خرچ ہو گئے.بہنوں کے رشتے آنا بند ہو گئے اور ان کے سروں میں چاندی اترنے لگی. جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہر ہفتے والدین اور بہنیں ملاقات کے لئے جاتے. بہنوں کا ایک ہی سوال ہوتا کہ بھیا اب ہمارا کیا ہو گا؟ ہم اپنے بھائی کے بستر پر کسے سلائیں گے؟ ہم بھائی کے ناز کیسے اٹھائیں گے؟ بھائی کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا. فیصلے کا دن آیا اور جنید کو سزائے موت ہو گئی. سزائے موت کی تاریخ مقرر ہو گئی. 25 منٹ گزر چکے تھے اور جنید کے جسم پر لرزہ طاری ہو چکا تھا. جیل میں وہ اپنی موت کے قدم گن رہا تھا اور گھر میں والدین اور بہنیں اپنے کرب اور اذیت کی جہنم میں جھلس رہے تھے. جنید کی آنکھوں پر کالی پٹیاں باندھ دی گئیں اور اسے پھانسی گھاٹ کی طرف لے جایا گیا. 29 منٹ ہو چکے تھے. پھانسی گھاٹ پر پیر رکھتے ہی 30 منٹ پورے ہو گئے. جنید پسینہ پسینہ ہو چکا تھا. اس کے جسم میں کپکپی طاری تھی. اس نے پستول واپس الماری میں رکھ دیا. اس نے میز سے اپنی بہنوں کی دو کتابیں اٹھائیں اور بہنوں کے پاس گیا. بہنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میری پیاری بہنو تمہارے پڑھنے کا وقت ہو گیا ہے. خوب دل لگا کر پڑھو کیونکہ تمہیں ڈاکٹر بننا ہے.
چند ماہ بعد جنید ایک بینک میں اچھی پوسٹ پر ملازم ہو گیا. جنید کی دونوں بہنیں ڈاکٹر بن گئیں. وہ ایک کامیاب اور بھرپور زندگی گزار رہے ہیں. ان 30 منٹ کی تصوراتی واردات اور 30 منٹ کے مقدمے کی کارروائی نے ایک پورے گھر کو اجڑنے سے بچا لیا. آپ اپنی زندگی میں یہ 30 منٹ اپنے لئے ضرور بچا کے رکھئیے گا، یہ 30 منٹ کی تصوراتی اذیت آپ کو زندگی بھر کی اذیت سے بچا لے گی !!!

WhatsApp Group Invite

*حقیقی دوست*ڈاکٹر نے جب میرے والد کے حقے پر پابندی لگائی تو والد نے حقہ گودام میں رکھوا دیا یوں دکان کی بڑی اٹریکشن اچان...
19/10/2022

*حقیقی دوست*
ڈاکٹر نے جب میرے والد کے حقے پر پابندی لگائی تو والد نے حقہ گودام میں رکھوا دیا یوں دکان کی بڑی اٹریکشن اچانک ختم ہو گئی‘ انھیں دنوں ’’ایکس چینج‘‘کی ’’اپ گریڈیشن‘‘بھی شروع ہو گئی اور ہمارا فون بھی عارضی طور پر کٹ گیا یوں دکان کی دوسری اٹریکشن بھی ختم ہو گئی۔
وہ لوگ جو روز صبح سویرے ہماری دکان پر آ کر بیٹھ جاتے تھے اور ان کی شام بھی اسی دکان پر ہوتی تھی وہ بھی اچانک غائب ہو گئے۔
ہم جن کو والد کا انتہائی قریبی دوست سمجھتے تھے‘ جو لوگ ہمارے چاچا جی ہوتے تھے‘ جو گلی میں داخل ہو کر اونچی آواز میں چوہدری صاحب کا نعرہ لگاتے تھے اور جو گھنٹوں ہمارے والد کی تعریفیں کرتے تھے‘ وہ سب بھی غائب ہو گئے‘ ہم ان کی شکلیں تک بھول گئے‘ میرے والد سارا دن دکان پر اکیلے بیٹھے رہتے۔

میں اس وقت پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا‘ میرے کچے ذہن کے لیے یہ صورتحال ہضم کرنا مشکل تھا ‘ میں ایک دن والد کے پاس بیٹھا اور میں نے ان سے پوچھا ’’ابا جی آپ کے سارے دوست کہاں چلے گئے ہیں‘‘ میرے والد نے غور سے میری طرف دیکھا ‘ میری آنکھوں میں اس وقت آنسو تھے‘ میرے والد نے رومال سے میری آنکھیں صاف کیں‘ سر پر ہاتھ پھیرا اور بڑے پیار سے کہا ’’بیٹا یہ لوگ میرے دوست نہیں تھے‘ یہ حقے اور ٹیلی فون کے دوست تھے‘ حقہ بند ہو گیا‘ ٹیلی فون کٹ گیا‘ یہ لوگ بھی کٹ گئے۔ جس دن ٹیلی فون اور حقہ واپس آ جائے گا‘ یہ لوگ بھی اس دن واپس آ جائیں گے‘‘ میرے کچے ذہن نے یہ فلسفہ سمجھنے سے انکار کر دیا۔ میرے والد نے میرے چہرے کی گومگو پڑھ لی۔ وہ بولے بیٹا یاد رکھو !
اللہ تعالیٰ جب آپ کو کوئی نعمت دیتا ہے تو یہ نعمت اپنے ساتھ نئے دوست لے کر آتی ہے لیکن ہم نعمت کے ان دوستوں کو اپنا دوست سمجھ بیٹھتے ہیں‘ یہ ہماری بے وقوفی ہوتی ہے‘ یہ نعمت جس دن چلی جاتی ہے‘ یہ سارے دوست بھی رخصت ہوجاتے ہیں۔
میرے والد نے اس کے بعد شاندار نصیحت کی‘ انھوں نے فرمایا ’’بیٹا آپ کا اصل کمال یہ ہوگا آپ نعمتوں کے دوستوں کو نعمتوں کا دوست رہنے دو‘ آپ ان لوگوں کو کبھی اپنا دوست نہ بننے دو‘ تم زندگی میں کبھی مایوس نہیں ہوگے‘‘

میرے والد نے فرمایا ’’بیٹا آپ کار کے دوستوں کو کار کا دوست سمجھو‘ کاروبار کے دوستوں کو کاروبار کا دوست سمجھو اور اپنے عہدے کے دوستوں کو عہدے کا دوست سمجھو‘ ان لوگوں کو کبھی اپنے دل تک نہ پہنچنے دو ‘تمہارا دل کبھی زخمی نہیں ہوگا‘ تم کبھی خون کے آنسو نہیں روؤ گے۔

WhatsApp Group Invite

10/09/2022

کہتے ہیں کہ ایک طوطا طوطی کا گزر ایک ویرانے سے ہوا ،
ویرانی دیکھ کر طوطی نے طوطے سے پوچھا
”کس قدر ویران گاؤں ہے،.۔.؟
“طوطے نے کہا لگتا ہے یہاں کسی الو کا گزر ہوا ھے“
جس وقت طوطا طوطی باتیں کر رہے تھے ،
عین اس وقت ایک الّو بھی وہاں سے گزر رہا تھا،
اس نے طوطے کی بات سنی اور وہاں رک کر ان سے مخاطب ہوکر بولا،
تم لوگ اس گاؤں میں مسافرلگتے ہو،
آج رات تم لوگ میرے مہمان بن جاؤ،
میرے ساتھ کھانا کھاؤ،
اُلو کی محبت بھری دعوت سے طوطے کا جوڑا انکار نہ کرسکا اور انہوں نے اُلو کی دعوت قبول کرلی،
کھانا کھا کر جب انہوں نے رخصت ہونے کی اجازت چاہی،
تو اُلو نے طوطی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ..
تم کہاں جا رہی ہو
طوطی پرشان ہو کر بولی یہ کوئی پوچنے کی بات ہے ،
میں اپنے خاوند کے ساتھ واپس جا رہی ہوں۔۔۔،
الو یہ سن کر ہنسا..
اور کہا ..
یہ تم کیا کہ رہی ہوتم تو میری بیوی ہو.
اس پہ طوطا طوطی الو پر جھپٹ پڑے اور گرما گرمی شروع ہو گئی،
دونوں میں جب بحث و تکرار زیادہ بڑھی تواُلو نے طوطے کے کے سامنے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہا
”ایسا کرتے ہیں ہم تینوں عدالت چلتے ہیں اور اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں،
قاضی جو فیصلہ کرے وہ ہمیں قبول ہوگا“
اُلو کی تجویز پر طوطا اور طوطی مان گئے اور تینوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے ،
،قاضی نے دلائل کی روشنی میں اُلو کےحق میں فیصلہ دے کر عدالت برخاست کردی،
طوطا اس بے انصافی پر روتا ہوا چل دیا تو اُلو نے اسے آواز دی ،
”بھائی اکیلئے کہاں جاتے ہواپنی بیوی کو تو ساتھ لیتے جاؤ“
طوطے نے حیرانی سے اُلو کی طرف دیکھا اور بولا ”اب کیوں میرے زخموں پر نمک چھڑکتے ہو،
یہ اب میری بیوی کہاں ہے ،
عدالت نے تو اسےتمہاری بیوی قرار دے دیا ہے“
اُلو نے طوطے کی بات سن کر نرمی سے بولا،
نہیں دوست طوطی میری نہیں تمہاری ہی بیوی ہے-
میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الو ویران نہیں کرتے.
بستیاں تب ویران ہوتی ہیں جب ان سے انصاف اٹھ جاتا ہے ......

09/09/2022

میچورٹی
میچورٹی کا ایک لیول یہ ہوتا ہیکہ آپ وضاحت دینا چھوڑ دیتے ہیں، خاموش ہو جاتے ہیں۔ بحث نہیں کرتے اگر کوئی آپ کو بُرا بھلا بھی کہہ دے تو یہ کہہ کر مُسکرا کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ “Yes I'm” اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ سچ میں ویسے ہی ہوتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ بات آپ کے لیے اہمیت ہی نہیں رکھتی۔
گاڑی کے پیچھے کچھ فاصلے تک کتا بھونکتا اور دوڑتا ہے۔ نہ یہ کتا آپ سے گاڑی چھیننا چاہتا ہے نہ گاڑی میں بیٹھتا چاہتا ہے اور نہ ہی اسے گاڑی چلانی ہے، بس خوامخواہ بھوکنا اس کی عادت ہے۔

ایسے ہی زندگی کے سفر میں جب آپ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں تو کچھ اسی عادت کے لوگ بناء کسی مقصد کے آپ کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس لئے جب آپ اپنی منزل پر رواں دواں ہوں اور لوگ آپ کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کریں تو ان سے الجھنے کے بجائے اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہیں۔ آپ کو تلخ نہیں ہونا، آپ کو بدلہ لینے والا نہیں بننا۔ آپ کو چالیں چلنے والا، جال بچھانے والا بھی نہیں بننا۔ آپ کو ایسا بھی نہیں ہونا کہ آپ شاطر کہلائیں اور ایسا بھی نہیں کرنا کہ آپ گڑھے کھودیں۔

زخم دل اور روح پر ہیں۔۔۔ لیکن ان کے لیے مرہم بدلہ لے کر تیار نہ کریں۔ مرہم آسمانی ہی اچھے ہوتے ہیں۔ مرہم رحمانی ہی شفاء دیتے ہیں۔ چھوڑ دیں، جو ہوا جانے دیں، جس نے جو کیا اپنے پچھلے دروازے بند کر کے آگے بڑھ جائیں۔ زخم دینے والوں، تکلیف پہنچانے والوں، روح کو روند دینے والوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر اپنا حال ٹھیک کریں۔ کیونکہ آپ کو وہ نہیں بننا، جو حالات آپ کو بنا رہے ہیں۔ آپ کو وہ بننا ہے جو اعمال بناتے ہیں۔
“رب کا بندہ”۔۔۔ بندہ مومن۔۔۔ انسان۔۔۔

اِن شاءاللہ تعالیٰ! کامیابی آپ کی منتظر رہے گی۔

مُسکرائیں

09/09/2022

آج میں نے اپنے والد کے ساتھ بینک میں ایک گھنٹہ گزارا تھا، کیونکہ انہیں کچھ رقم منتقل کرنی تھی۔ میں اپنے آپ کو روک نہیں سکا اور پوچھا... ''بابا
، ہم آپ کی انٹرنیٹ بینکنگ کو فعال کیوں نہیں کر دیتے؟''
’’میں ایسا کیوں کروں گا؟‘‘انہوں نے پوچھا۔
ٹھیک ہے، پھر آپ کو منتقلی جیسی چیزوں کے لیے یہاں ایک گھنٹہ بھی نہیں گزارنا پڑے گا۔آپ اپنی خریداری آن لائن بھی کر سکتے ہیں۔ سب کچھ اتنا آسان ہو جائے گا!'' میں انھیں نیٹ بینکنگ کی دنیا میں شروعات کے بارے میں بتاتے ہوۓ پر جوش تھا
با با نے پوچھا، ''اگر میں ایسا کروں تو مجھے گھر سے باہر نہیں نکلنا پڑے گا؟
ہاں ہاں''! میں نے کہا. میں نے انھیں بتایا کہ سودا سلف بھی اب دروازے پر کیسے ڈیلیور کیا جا سکتاہے ! لیکن ان کے جواب نے میری زبان بند کر دی۔ انہوں نے کہا
''جب سے میں آج اس بینک میں داخل ہوا ہوں، میں اپنے چار دوستوں سے ملا ہوں، میں نے کچھ دیر عملے سے بات چیت کی ہے جو اب تک مجھے اچھی طرح جانتے ہیں۔ تم جانتے ہو کہ میں اکیلا ہوں...یہ وہ رفاقت ہے جس کی مجھے ضرورت ہے۔ میں تیار ہو کر بینک آنا پسند کرتا ہوں۔ میرے پاس کافی وقت ہے۔
انہوں نے کہا ۔۔۔دو سال پہلے میں بیمار ہوا، دکان کا مالک جس سے میں پھل خریدتا ہوں، مجھے ملنے آیا اور میرے پلنگ کے پاس بیٹھ کر رونے لگا۔ جب تمہاری ماں کچھ دن پہلے صبح کی سیر کے دوران گر گئی تھی۔ ہمارے مقامی گروسر نے اسے دیکھا اور فوری طور پر گھر رابطہ کیا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میں کہاں رہتا ہوں۔ اگر سب کچھ آن لائن ہو جائے تو کیا مجھے وہ 'انسانی' ٹچ ملے گا؟
مجھے صرف اپنے فون کے ساتھ بات چیت کرنے پر مجبور کیوں کیا جائے؟ یہ رشتوں کے بندھن بناتا ہے۔ کیا آن لائن ایپس بھی یہ سب فراہم کرتی ہیں ؟'''' ٹیکنالوجی زندگی نہیں ہے..
لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں..آلات کے ساتھ نہیں۔
*

09/09/2022

ﮐﺴﯽ ﮔﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﭘﻨﮯ شوہر اور ﭘﺎﻧﭻ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻟﮩٰﺬﺍ ﯾﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﮐﻠﻮﺗﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﻭ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﯽ، ﺍُﻧﮑﮯ ﺑﺮﺗﻦ ﻣﺎﻧﺠﮭﺘﯽ، ﮐﭙﮍﮮ ﺩﮬﻮﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺍُﻧﮑﮯ ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺍﮐﯿﻠﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺗﻦ ﺗﻨﮩﺎ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﺗﯽ۔ ﺻﺮﻑ ﺍِﺱ ﻟﯿﮯ ﮐﮧ ﺍُﺳﮑﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﯽ ﮐﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﻤﯽ ﻧﮧ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﮯ ...
ﻭﻗﺖ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﮔﯿﺎ، ﺍﻭﺭ ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻝ ﺑﯿﺖ ﮔﺌﮯ۔ ﺍﺏ ﺍِﺱ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺟﻮﺍﻥ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﻮﮐﺮﯼ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍُﺳﮑﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﺎﺭﺍ ﺳﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﺏ ﺑﮍﮬﺎﭘﮯ ﮐﯽ ﺩﮨﻠﯿﺰ ﭘﺮ ﺩﺳﺘﮏ ﺩﮮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺑﯿﭩﺎ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻭﺭ ﻧﻮﮐﺮﯼ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺎﮞ ﮐﺎ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﺗﻮ ﺩﻭﺭ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺍُﺳﮑﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮈﮬﻨﮓ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ...
ﺍِﺱ ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺍﺗﻨﺎ ﻓﺮﻕ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﯾﮧ ﻏﯿﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﺮﺗﻦ ﺍﻭﺭ ﮐﭙﮍﮮ ﺩﮬﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍﺏ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮩﻮ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﺑﺮﺗﻦ ﺩﮬﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ، ﭘﮩﻠﮯ ﯾﮧ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍﺏ ﯾﮧ ﺑﮩﻮ ﮐﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﺗﮭﯽ ...
ﺧﯿﺮ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺎﮞ، ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﻭﮦ ﮨﺮ ﺩُﮐﮫ ﺟﮭﯿﻠﻨﮯ ﮐﻮ ﺗﯿﺎﺭ ﺗﮭﯽ۔ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ، ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺩﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺍﺏ ﺍُﺳﮑﮯ ﭘﺎﺱ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻟﮓ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﮩﺎﮞ ﻣﻮﺳﻢ ﮐﯽ ﺷﺪﺕ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ😭، ﺍﻭﺭ ﮐﺌﯽ ﮐﺌﯽ ﺩِﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﮐﺒﮭﯽ ﻭﮦ ﺍُﺱ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﮔﺰﺭﮮ ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﻣﺤﺮﻭﻣﯿﺎﮞ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﻭﺍ ﮐﺮ ﻃﻌﻨﮯ ﺩﯾﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﮍﻧﮯ ﺟﮭﮕﮍﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ...
ﺍﯾﮏ ﺩِﻥ ﺳﺮﺩﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﯾﺦ ﺑﺴﺘﮧ ﺷﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﺍُﺳﮑﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﭘﮭﭩﮯ ﭘُﺮﺍﻧﮯ ﮐﻤﺒﻞ ﻣﯿﮟ ﺳُﮑﮍ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ، ﺁﺝ ﺍُﺳﮑﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﻧﺌﮯ ﮐﻤﺒﻞ ﮐﺎ ﮐﮩﮯ ﮔﯽ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍِﺱ ﮐﻤﺒﻞ ﻣﯿﮟ ﺍُﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﺮﺩﯼ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺍُﺳﮑﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﮨﮉﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍِﺱ ﺳﺮﺩﯼ ﮐﻮ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮨﻤﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ، ﺍﻭﺭ ﺍُﺳﮯ ﺳﻮ ﻓﯿﺼﺪ ﯾﻘﯿﻦ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍُﺳﮑﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺑﮍﮮ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﺍُﺳﮑﯽ ﯾﮧ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ...
ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺑﯿﭩﺎ ﮔﮭﺮ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺑﮍﮮ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﺍُﺳﮯ ﻧﺌﮯ ﮐﻤﺒﻞ ﮐﺎ ﮐﮩﺎ ﺗﻮ، ﺑﯿﭩﺎ ﻏﺼﮯ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ :
" ﻣﺎﮞ! ﺍﺑﮭﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ، ﺍﻭﺭ ﺁﺗﮯ ﮨﯽ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁ ﮔﺌﯽ ﮨﻮ۔ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﺘﮧ ﮨﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﮩﻨﮕﺎﺋﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭘﻮﺗﮯ ﮐﻮ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺩﺍﺧﻞ ﮐﺮﻭﺍﻧﺎ ﮨﮯ، ﺍُﺳﮑﺎ ﯾﻮﻧﯿﻔﺎﺭﻡ ﺍﻭﺭ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﻟﯿﻨﯽ ﮨﯿﮟ، ﮔﺎﮌﯼ ﮐﯽ ﻗﺴﻂ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﯽ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﯿﮑﭧ ﺧﺮﯾﺪﻧﯽ ﮨﮯ، ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺑﮩﻮ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺷﺎﻝ ﻻﻧﯽ ﮨﮯ۔ ﺗﻢ ﺗﻮ ﺳﺎﺭﺍ ﺩِﻥ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﻮ، ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﻤﺒﻞ ﮐﯽ ﺍﺗﻨﯽ ﮐﯿﺎ ﺍﺷﺪ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺁﻥ ﭘﮍﯼ ﮨﮯ؟ ﮨﻢ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺑﺎﮨﺮ ﮔﮭﻮﻣﻨﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﺗﻢ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﯾﮧ ﺳﺮﺩﯾﺎﮞ ﮔﺰﺍﺭ ﻟﻮ، ﺍﮔﻠﮯ ﺳﺎﻝ ﺳﺮﺩﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮐﻤﺒﻞ ﮐﺎ ﮐﭽﮫ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﮐﺮ ﺩﻭﻧﮕﺎ ... "
ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻣﺎﮞ ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﭘﯽ ﮐﺮ ﭼُﭗ ﭼﺎﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺣﺎﻝ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﭩﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﻤﺒﻞ ﮐﻮ ﺍﻭﮌﮪ ﮐﺮ ﭨﻮﭨﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﭼﺎﺭﭘﺎﺭﺋﯽ ﮐﮯ ﮐﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺳُﮑﮍ ﮐﺮ ﻟﯿﭧ ﮔﺌﯽ ...
ﺻﺒﺢ ﺟﺐ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﯽ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﭼﻼ، ﭘﭽﮭﻠﯽ ﺭﺍﺕ ﻣﺎﮞ فوت ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺭﺷﺘﮯ ﺩﺍﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﭘﺮ ﺑﻼﯾﺎ، ﺍﻭﺭ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﮐﻔﻦ ﺩﻓﻦ ﺍﻭﺭ ﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﻣﺪﺍﺭﺕ ﭘﺮ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﺭﻭﭘﮯ ﺧﺮﭺ ﮐﯿﮯ۔ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﯾﮏ ﮨﻮﺍ، ﯾﮩﯽ ﮐﮩﺘﺎ ﮐﮧ :
" ﮐﺎﺵ! ﺍﻟﻠﮧ ﮨﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺩﮮ، ﻣﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ ... "
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺘﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ، ﺩﻧﯿﺎ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺩِﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﺟﻮ ﺑﯿﭩﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺮﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﭘﺮ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﺭﻭﭘﮯ ﺧﺮﭺ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ، ﭘﭽﮭﻠﯽ ﺭﺍﺕ ﭼﻨﺪ ﺳﻮ ﺭﻭﭘﮯ ﮐﮯ ﮐﻤﺒﻞ ﮐﮯ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻭﮨﯽ ﻣﺎﮞ ﺳﺮﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﺳﺴﮏ ﺳﺴﮏ ﮐﺮ ﺟﺎﻥ ﺩﮮ ﮔﺌﯽ ...
ﺍﯾﺴﯽ ﺳﯿﻨﮑﮍﻭﮞ ﺳﭽﯽ ﮐﮩﺎﻧﯿﺎﮞ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﺭﺩ ﮔﺮﺩ ﺑﯿﺘﺘﯽ ﮨﯿﮟ، خدارا اپنے ماں ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﻗﺪﺭ ﺍُﻧﮑﮯ ﺟﯿﺘﮯ ﺟﯽ ﮐﺮ لیجئے، ﺍِﺳﯽ ﻣﯿﮟ مجھ گناہ گار و سمیت ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﯽ ﺑﮭﻼﺋﯽ ﮨﮯ۔ ﻣﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻗﺪﺭ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ ...

02/09/2022

*تیس روپے کا گھی*
محکمہ فوڈ کی انسپکٹر کریانہ کی ایک چھوٹی سی دکان پر چیکنگ کرنے گئی۔۔۔گھی کا ٹین کھلا ہوا دیکھا تو دکاندار سے بولی اگر دوبارہ اس طرح کھلا گھی نظر آیا تو سخت ایکشن لوونگی۔۔۔دکاندار نے لیڈی انسپکٹر سے کہا ۔۔۔۔محترمہ آپ یہاں تھوڑی دیر بیٹھیں ۔۔۔اسکا جواب آپ کو یہیں بیٹھے بٹھائے مل جائے گا۔۔۔لیڈی انسپکٹر متجسس ہوتے ہوئے وہاں بیٹھ گئی کہ دیکھیں تو سہی آخر اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔۔۔وہ تھوڑی دیر بیٹھی تھی کہ ایک بزرگ خاتون ہاتھ میں چھوٹی کٹوری لیے دکان پر آئی اور دکاندار سے کہا۔ بیٹا بیس روپے کی دال اور تیس روپے کا گھی دے دیں۔۔دکاندار نے معنی خیز نظروں سے فوڈ انسپکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے تھوڑی سی دال اور ایک آدھ چمچ گھی کا کٹوری میں ڈال دیا۔۔تھوڑی ہی دیر بعد ایک بزرگ جسکی قمیض نہیں تھی ۔۔۔بنیان شلوار میں دکان پر آیا اور کہا۔۔۔جناب تیس روپے کی چینی۔۔بیس روپے کا گھی اور پچاس روپے کا آٹا دے دیں۔۔۔دکاندار نے ایک مرتبہ پھر معنی خیز نظروں سے لیڈی انسپکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے اسے سامان دے دیا۔۔جب وہ شخص دوکان سے چلا گیا تو اس نے لیڈی فوڈ انسپکٹر سے کہا۔۔محترمہ اگر ہم کھلا گھی نہ دیں تو معاشرے کا یہ طبقہ بھوکوں مر جائے۔۔کھلے گھی کی فروخت میں ہمیں گھاٹا اٹھانا پڑتا ہے۔۔لیکن ان مجبور فیملیوں کے چولہوں کو گرم رکھنے کےلیے ہمیں آٹا گھی چینی وغیرہ ایسے ہی فروخت کرنی پڑتی ہے۔۔۔۔یہ لوگ نمک کی کانوں میں دن بھر مزدوری کرتے ہیں۔۔شام کو انکو پانچ سو روپیہ ملتا ہے۔۔جو انکے دن بھر کا خرچ ہوتاہے۔۔کبھی کبھار یہی لوگ دس روپے کا گھی لینے کےلیے چھوٹے بچوں کو بھیج دیتے ہیں۔۔۔اور ہم بھی انہیں دے دیتے ہیں۔۔ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ یہ سودا سراسر گھاٹے گا ہے۔۔لیکن ہمیں اس بات کا بھی ادراک ہوتا ہے کہ اگر ہم نے انہیں دس روپے کا گھی نہ دیا تو اس گھر میں کھانا نہیں پکنا۔۔۔اور معصوم بچے بھوکے سوئیں گے۔۔۔ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہم نے بیس روپے کی چینی نہ دی تو اس گھر میں چائے نہیں پکے گی۔۔۔یوں ہم منافع کو نظر انداز کرتے ہوئے سودا دیتے ہیں۔۔۔دکاندار کی باتیں سنکر لیڈی انسپکٹر کی عقل ٹھکانے آگئی اور اس نےدکاندار کو کھلا گھی یہ کہتے ہوئے فروخت کرنے کی مشروط اجازت دے دی کہ ٹین کے اوپر جالی رکھ دیا کریں تاکہ اس میں کیڑے مکوڑے نہ گریں۔۔۔
دوستو یہ قصہ بہت دور کا نہیں بلکہ پرانی ماڑی کا ہے اور میرے ایک دوست کو دکاندار بتا رہا تھا کہ اس کے پاس لیڈی انسپکٹر فوڈ ڈیپارٹمنٹ آئی تو اس نے عملی طور پر دکھایا کہ بعض افعال ہم مجبوری کی وجہ سے کرتے ہیں۔۔میں سلام پیش کرنا چاہوں گا ان جیسے دکانداروں کو۔۔۔جو غریب لوگوں کی عزت نفس کو قائم رکھتے ہوئے دس روپےکا بھی گھی دے دیتے ہیں حالانکہ ایک لحاظ سے وہ مفت دے رہے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔بیس تیس روپے کے تو آجکل کدو بھی نہیں ملتے۔۔۔ایسے خداترس دکاندار اللہ کی رضا کےلیے بیس تیس روپےکاگھی دے دیتے ہیں ہمیں ان کریانہ مرچنٹس کی تقلید کرنی چاہیے۔۔۔اور جب کبھی ہمارے پاس کوئی برائے نام پیسے لیکر کچھ سامان لینے آجائے تو۔۔اسکی عزت نفس قائم رکھتے ہوئے اسے سودا سلف دے دینا چاہیے۔۔بلکہ کچھ تھوڑازیادہ ہی دے دینا چاہیے۔۔اس طرح اللہ ہمارے رزق میں برکت ڈالےگا اور شاید یہی افعال یوم آخرت ہماری بخشش کاوسیلہ بن جائیں ۔
*اب رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہے*
ہزاروں مجبور لوگ ۔۔ہزاروں معصوم بچے آپکی طرف للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہونگے جب آپ اپنے بچوں کےلیے نئے کپڑے نئے جوتے لینے جائیں۔۔تو ان معصوم بچوں کے بارے میں بھی سوچ لینا۔۔۔اور ایک ایک جوڑا فالتو لے لینا۔۔۔۔ان غریبوں کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کےلیے۔۔۔اگر گھی آٹاچینی دے سکیں تو عید پیکج بنا کر ان غریب فیملیوں کو رات کےاندھیرے میں پہنچا دیں تاکہ انہیں ان کو خوشیاں بھی مل جائیں۔۔۔۔ اور انکی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو۔۔

02/09/2022

*اتنی محنت بھی کرتے ہیں پھر بھی حالات اچھے نہیں*
ایک دِن میں محلے میں باورچی کے پاس بیٹھا تھا۔ دِل بہت بے چین تھا میں نے باورچی سے سوال کیا یار میں نمازیں پڑھتا ہوں روزے رکھتا ہوں کوئی بُرا کام نہیں کرتا پھر بھی تنگدستی رہتی ہے رب کے ہاں بات نہیں بنتی باورچی کہنے لگا باؤ جی! ذرا ہنڈیا پکا لیں پھر اِس پر بات کرتے ہیں یہ کہہ کر باورچی نے ہنڈیا چولہے پر رکھی پیاز ڈالا لہسن ڈالا ٹماٹر نمک مرچ مصالحہ سب کچھ ڈال کر میرے پاس آ کر بیٹھ گیا اور باتیں کرنے لگا باتیں کرتے کرتے اچانک میری نظر چولہے پر پڑی دیکھا باورچی آگ جلانا بُھول گیا میں نے اُسکی توجہ دلائی تو کہنے لگا باؤ جی ہنڈیا میں سب کچھ تو ڈال دیا ہے پَک جائے گی میں نے کہا آگ نہیں جلائی تو ہنڈیا کیسے پَک جائے گی؟
جواب میں کہنے لگا باؤ جی جس طرح ہنڈیا میں سب کچھ موجود ہونے کے باوجود آگ لگائے بغیر ہنڈیا نہیں پَک سکتی بالُکل اسی طرح نماز روزہ زکوة خیرات کرنے سے اُس وقت تک کچھ حاصل نہیں ہو گا جب تک اپنے وجود کو تقویٰ اور پرہیزگاری کی آگ پر نہیں چڑھاؤ گے اور یہ آگ آپکے ضمیر اور کردار نے لگانی ہے غُصہ غیبت حِرص منافقت ہوس اور بُغض سے جان چھڑاؤ اپنی ذات کو مخلوق کی خدمت کا تڑکا لگاؤ تب جا کر وجود کی ہنڈیا پَکے گی پھر بات بنے گی پھر اللہ سے رابطہ ہو گا

Address

Islamabad

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Duniya ki baty posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Duniya ki baty:

Share